تحریک ختم نبوت 1953ء
ہندوستان تقسیم ہوا، مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آئی، بدنصیبی سے اس اسلامی مملکت کا وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ خان قادیانی کو بنا دیا گیا۔ اس نے مرزائیت کو اندرون و بیرون ملک متعارف کرانے کی کوشش تیز سے تیز تر کر دی۔ ان حالات میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری (امیر کاروان مجلس احرار اسلام) نے پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔
مولانا محمد علی جالندھری اور مولانا غلام غوث ہزاروی پیغام لے کر مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری کے دروازے پر گئے اوریوں اس تحریک کی قیادت کا فرض انہوں نے ادا کیا۔ مولانا احمد علی لاہوری ، مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا خواجہ قمر الدین سیالوی ، مولانا پیر غلام محی الدین گولڑوی ، مولانا عبدالحامد بدایونی ، علامہ احمد سعید کاظمی ، مولانا پیر سر سینہ شریف ، آغا شورش کاشمیری ، ماسٹر تاجدین انصاری ، شیخ حسام الدین ، مولانا صاحبزادہ سید فیض الحسن ، مولانا اختر علی خاں ، غرضیکہ کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک کے تمام مسلمانوں نے اپنی مشترکہ آئینی جدوجہد کا آغاز کیا۔
بلاشبہ برصغیر کی یہ عظیم ترین تحریک تھی جس میں دس ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ایک لاکھ مسلمانوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ دس لاکھ مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوئے۔
تحریک کے ضمن میں انکوائری کمیشن نے رپورٹ مرتب کرنا شروع کی۔ عدالتی کاروائی میں حصہ لینے کی غرض سے علماء اور وکلا کی تیاری، مرزائیت کی کتب کے اصل حوالہ جات کو مرتب کرنا بڑا کٹھن مرحلہ تھا اور ادھر حکومت نے اتنا خوف و ہراس پھیلا رکھا تھاکہ تحریک کے رہنماؤں کو لاہور میں کوئی آدمی رہائش تک دینے کے لیے تیار نہ تھا۔
جناب عبدالحکیم احمد سیفی نقشبندی مجددی خلیفہ مجاز خانقاہ سراجیہ نے اپنی عمارت 7 بیڈن روڈ لاہور کو تحریک کے رہنماؤں کے لیے وقف کردیا۔ تمام تر مصلحتوں سے بالائے طاق ہو کر ختم نبوت کے عظیم مقصد کے لیے ان کے ایثار کا نتیجہ تھا کہ مولانا محمد حیات ، مولانا عبدالرحیم اشعر اور رہائی کے بعد مولانا محمد علی جالندھری ، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی اور دوسرے رہنماؤں نے آپ کے مکان پر انکوائری کے دوران قیام کیا اور مکمل تیاری کی۔ ان ایام میں مولانا محمد عبداللہ بھی وہیں قیام پذیر رہے اور تمام کام کی نگرانی فرماتے رہے۔
1953ء کی تحریک ختم نبوت کے بعد مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور ان کے گرامی قدر رفقاء مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی ، مولانا لال حسین اختر ، مولانا عبدالرحمن میانوی ، مولانا محمد شریف بہاولپوری ، سائیں محمد حیات اور مرزا غلام نبی جانباز نے الیکشن کی سیاست سے کنارہ کش ہو کر خالصتاً دینی و مذہبی بنیاد پر مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی بنیاد رکھی ۔ قادیان میں کانفرنس کر کے چور کا اس کے گھر تک تعاقب کیا۔
مولانا ظفر علی خاں اور علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں نے ردِّمرزائیت میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ مجلس احرار اسلام پر مسجد شہید گنج کا ملبہ گرا کر اسے دفن کرنے کی کوشش بھی کی گئی جو کامیاب نہ ہو سکی۔
ان حضرات نے سیاست سے علیحدگی کا محض اس لئے اعلان کیا کہ کسی کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ مرزائیت کی تردید اور ختم نبوت کی ترویج کے سلسلہ میں ان کے کوئی سیاسی اغراض ہیں۔ چنانچہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان نے مرزائیت کے خلاف مناظرہ، مباہلہ، تحریر و تقریر اور عوامی جلسوں کا مسلسل انتظام کیا۔ جگہ جگہ ختم نبوت کے دفاتر قائم ہوئے،
مولانا لال حسین اختر نے برطانیہ سے آسٹریلیا تک قادیانیت کا تعاقب کیا۔ان کوششوں سے مرزائیت کا عوامی محاذ پر زور کم ہو گیا لہٰذا اُنھوں نے حکومتی عہدوں، فوج اور سرکاری دفاتر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش تیز کر دی اور انقلاب کے ذریعہ اقتدار کا خواب دیکھنے لگے۔