Era of Mirza Ghulam Ahmad Qadiani - مرزا قادیانی کا دور
متحدہ ہندوستان میں انگریز ظلم وستم اور دوسرے حربوں سے جب مسلمانوں کے دلوں کو مغلوب نہ کرسکا تو اس نے ایک کمیشن قائم کیا جس نے پورے ہندوستان کا سروے کیا اور واپس جا کر برطانوی پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی کہ مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد مٹانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا جائے جو جہاد کو حرام اور انگریز کی اطاعت کو مسلمانوں پر اللہ کے حکم کی حیثیت سے فرض قرار دے۔
ان دنوں مرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ ڈی سی آفس میں معمولی درجے کا کلرک تھا۔ اردو، عربی اور فارسی اپنے گھر میں پڑھی تھی۔ مختاری (وکالت) کا امتحان دیا مگر ناکام ہو گیا۔ اس کی تعلیم دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے ناقص تھی۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے انگریز ڈپٹی کمشنر کے توسط سے مسیحی مشن کے ایک اہم شخص نے مرزا سے ڈی سی آفس میں ملاقات کی۔ گویا یہ مسیحی مشن کا انٹرویو تھا۔
مسیحی مشن کا یہ فرد انگلینڈ روانہ ہو گیا اور مرزا قادیانی ملازمت چھوڑ کر قادیان پہنچ گیا۔ باپ نے کہا کہ نوکری کی فکر کرو، جواب دیا کہ میں نوکر ہوگیا ہوں اور پھر منی آرڈر ملنے شروع ہو گئے۔
مرزا قادیانی نے مذہبی اختلافات کو ہوا دی۔ بحث و مباحثہ، اشتہار بازی شروع کر دی۔ یہ تمام تر تفصیل مرزائی کتب میں موجود ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کام کے لئے برطانوی سامراج نے مرزا قادیانی کا کیوں انتخاب کیا۔ اس کا جواب خود مرزائی لٹریچر میں موجود ہے کہ مرزا قادیانی کا خاندان جدی پشتی انگریز کا نمک خوار تھا۔ مرزا قادیانی کے والد نے 1857ء کی جنگ آزادی میں برطانوی سامراج کو پچاس گھوڑے بمعہ سازو سامان مہیا کئے اور یوں مسلمانوں کے قتل عام سے اپنے ہاتھ رنگین کر کے انگریز سے انعام میں جائیداد حاصل کی۔ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر سرکار کی خدمت میں مصروف رہا۔
ستارہ قیصریہ صفحہ 4 میں اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ “میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت میں گذرا اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں” (تریا ق القلوب صفحہ 25)۔
جن حضرات کی مرزائیت کے لٹریچر پر نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی ہر بات میں تضاد ہے لیکن جہاد کو حرام قرار دینا اور انگریز کی اطاعت دو کام ایسے ہیں کہ ان معاملات میں مرزا قادیانی کی کبھی دو رائے نہیں ہوئیں کیونکہ یہ اس کا بنیادی مقصد اور غرض و غایت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی کتابوں میں اپنے آپ کو گورنمنٹ برطانیہ کا کاشت کیا ہوا پودا قرار دیا۔
سرسید احمد خان مرحوم کی روایت جو ان کے مشہور مجلہ تہذیب الاخلاق میں چھپ چکی ہے کہ خود سرسید احمد خان سے انگریز وائسرائے ہند نے مرزا قادیانی کی امداد و اعانت کرنے کا کہا۔ بقول ان کے انہوں نے نہ صرف رد کر دیا بلکہ اس منصوبے کا راز افشا کر دیا جس کے نتیجے میں انگریز وائسرائے سرسید احمد خاں سے ناراض ہو گیا۔ مرزا قادیانی کے دعویٰ جات پر نظر ڈالئے۔ اس نے بتدریج خادم اسلام، مبلغ اسلام، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، ظلی نبی، مستقل نبی، انبیاء سے افضل حتیٰ کہ خدائی تک کا دعویٰ کیا۔
یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبہ، گہری چال اور خطر ناک سازش کے تحت کیا گیا۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے مرزا قادیانی کے دعوے سے بہت پہلے پنجاب کے معروف روحانی بزرگ حضرت مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ سے حجاز مقدس میں ارشاد فرمایا کہ پنجاب میں ایک فتنہ اٹھنے والا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے خلاف آپ سے کام لیں گے۔
رد قادیانیت کے سلسلہ میں امت محمدیہ کے جن خوش نصیب حضرات نے بڑی جانفشانی سے کام کیا ان میں حضرت مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد علی مونگیری، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا قاضی حمد سلیمان منصور پوری،مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، پروفیسر محمد الیاس برنی، علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا محمد داؤد غزنوی، مولانا ظفر علی خان، حضرت مظہر علی اظہر، حافظ کفایت حسین، مولانا جماعت علی شاہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
علمائے لدھیانہ نے مرزا قادیانی کی گستاخ طبیعت کو اس کی ابتدائی تحریروں میں دیکھ کر اس کے خلاف کفر کا فتویٰ سب سے پہلے دیا تھا۔ ان حضرات کا خدشہ صحیح ثابت ہوا اور آگے چل کر پوری امت نے علمائے لدھیانہ کے فتوے کی تصدیق و توثیق کی۔غرضیکہ پوری امت کی اجتماعی جدوجہد سے مرزائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی کوشش کی گئی یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی نے بھی اپنی تصانیف میں مولانا نذیر حسین دہلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی، مولانا سید علی الحائری سمیت امت کے تمام طبقات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ یہی وہ حضرات تھے جنہوں نے تحریر، تقریر، مناظرہ اور مباہلہ کے میدان میں مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو چاروں شانے چت کیا۔
Read More Article: