رد قادیانیت اور مقدمہ بہاول پور

 بہاولپور ایک اسلامی ریاست تھی، اس کے والی نواب جناب صادق محمد خاں مرحوم ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول تھے اور خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مند تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے تمام خلفاء کو اس مقدمےمیں گہری دلچسپی تھی۔ اس مقدمے کی پیروی کے لئے سب کی نگاہ انتخاب مولانا انور شاہ کاشمیری پر پڑی، مولانا غلام محمد صاحب کی دعوت پر (جو  اس وقت جامعہ عباسیہ بہاولپور کے شیخ الجامعہ تھے اور حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارادت مند تھے) مولانا محمد انور شاہ کاشمیری اپنے تمام تر پروگرام منسوخ کر کے بہاولپور تشریف لائے۔ فرمایا کہ میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانبدار بن کر بہاولپور آیا تھا۔ اگر ہم ختم نبوت کی حفاظت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔

ان کے تشریف لانے سے پورے ہندوستان کی توجہ اس مقدمہ کی طرف مبذول ہو گئی۔

مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا محمد حسین کولوتارڑوی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا نجم الدین، مولانا ابو الوفا شاہ جہاں پوری اور مولانا محمد انور شاہ کاشمیری کے ایمان افروز بیانات ہوئے ۔

مولانا ابوالوفا شاہ جہاں پوری نے اس مقدمہ میں مختار مدعیہ کے طور پر کام کیا۔ ایک دن عدالت میں مولانا محمد انور شاہ کاشمیری نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر فرمایا کہ اگر چاہو تو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہو کر دکھاسکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے ۔ مسلمانوں کے چہروں پر بشاشت چھا گئی اور محسوس ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔

علمائے کرام کے بیانات مکمل ہوئے، نواب آف بہاولپور پر گورنمنٹ برطانیہ کا دباؤ بڑھا۔ مولانا محمد علی جالندھری بیان کرتے ہیں کہ نواب آف بہاولپور، نواب سر عمر حیات ٹوانہ سے لندن میں ملے اور مشورہ طلب کیا کہ انگریز گورنمنٹ کا مجھ پر دباؤ ہے کہ ریاست بہاولپور سے اس مقدمہ کو ختم کرا دیں تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ سر عمر حیات ٹوانہ نے کہا کہ ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں مگر دین، ایمان اور اپنے نبی سے عشق کا تو ان سے سودا نہیں کیا، آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے، میں حق و انصاف کے سلسلے میں اس پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ چنانچہ مولانا محمد علی جالندھری نے یہ واقعہ بیان کر کے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کی نجات کے لئے اتنی بات کافی ہے۔ جج جناب محمد اکبر کو ہر طرح کے لالچ میں پھنسانے کی مرزائیوں نے کوشش کی لیکن ان کی تمام تدابیر غلط ثابت ہوئیں۔

مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری اس فیصلے کے لیے اتنے بے تاب تھے کہ بیانات کی تکمیل کے بعد جب بہاولپور سے جانے لگے تو مولانا محمد صادق سے فرمایا کہ اگر زندہ رہا تو فیصلہ خود سن لوں گا اور اگر فوت ہوجاؤں تو میری قبر پر آکر یہ فیصلہ سنا دیا جائے۔ چنانچہ مولانا محمد صادق نے آپ کی وصیت کو پورا کیا۔ آپ نے آخری ایام علالت میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ و طلبہ اور دیگر بہت سے علماء کے مجمع میں تقریر فرمائی کہ وہ تمام حضرات جن کو مجھ سے بلا واسطہ یا بالواسطہ تعلق ہے اور جن پر میرا حق ہے میں ان کو خصوصی وصیت اور تاکید کرتا ہوں کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت و پاسبانی اور فتنہ قادیانیت کے قلع قمع کو اپنا خصوصی کام بنائیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں ان کو لازم ہے کہ ختم نبوت کی پاسبانی کا کام کریں۔

یہ مقدمہ حق و باطل کا عظیم معرکہ تھا۔ جب7 فروری 1935ء کو فیصلہ صادر ہوا تو مرزائیت کے صحیح خدوخال آشکارا ہوگئے۔ بلاشبہ پوری امت جناب محمد اکبر خان جج صاحب کی مرہون منت ہے کہ انہوں نے کمال عدل و انصاف محنت و عرق ریزی سے ایسا فیصلہ لکھا کہ اس کا ایک ایک حرف قادیانیت کے تابوت میں کیل ثابت ہوا۔ قادیانیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیر الدّین محمود کی سربراہی میں سرظفراللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ و بچار کی لیکن آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا  ہےکہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی۔

Qadianiat Laws and Court Decisions

تحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاولپور میں ایک شخص عبدالرزاق مرزائی ہو کر مرتد ہوگیا اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے 24جولائی 1926ء کو فسخ نکاح کا دعویٰ احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں دائر کردیا جو ابتدائی مراحل طے کر کے 1932ء میں ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کی عدالت میں بغرض شرعی تحقیق پیش ہوا۔آخر کار 7 فروری 1935ء کو فیصلہ بحق مدعیہ صادر ہوا۔

یہ مقدمہ اپنے وقت کا مشہور کیس ہے کیونکہ انگریزوں کا دور تھا اور مرزائیوں کو اُن کی بھرپور سرپرستی حاصل تھی۔ اس مقدمےمیں دونوں اطراف نے بھرپور زور لگایا ، چوٹی کے وکیلوں نے یہ مقدمہ لڑا اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ کفر و باطل کے درمیان فیصلہ کُن معرکہ تھا کہ جس نے مرزائیوں کو اُمت مسلمہ سے علیحدہ کر دیا اور ایسا پہلی بار ہوا کہ سرکاری سطح پر اُنھیں کافروں کے گروہ میں شمار کیا گیا۔اس مقدمے کی روئیداد محترمہ عائشہ بی بی کے فرزند کی زبانی سنیئے۔